Sunday, February 21, 2016

حجاب: عورت کی حقیقی آزادی کا ضامن .... ..ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻋﻠﻢ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﮰ ﺗﻮ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﻧﺴﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﮮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻢ ﮐﮯﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﮰ ﺗﻮ ﺑﮯﺣﯿﺎ ئی ﻧﺴﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ

طالبان کی قید سے شہرت پانے اور قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ایمان قبول کرنے والے نامور برطانوی صحافی ایوان ریڈلی کہتی ہیں کہ ’’ فرانس میں حجاب پر اس لئے پابندی لگی ہے کہ وہاں کی خاتون اول کی عریاں تصاویر نیٹ پر موجود ہیں، یہ بات ان کو بری لگتی ہے کہ جب ہم سارے زمانے کیلئے موجود اور دستیاب ہیں تو یہ مسلمان عورت کیوں حجاب میں رہے‘‘۔

ایک راسخ العقیدہ عیسائی گھرانے میں پرورش پانے والی، ایکٹریس ،ماڈل ، ٹیچر اور سیاسی کارکن سارہ بوکر 9/11کے بعد اسلام قبول کرکے حجاب اختیار کرتی ہے ۔اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں’’مجھے اپنے اسلام قبول کرنے اور حجاب پہننے کے فیصلے پر کوئی ندامت نہیں۔ مَیں نے فلوریڈا کے جنوبی ساحل پر تیراکی کے لباس اور مغرب کی گلیمرانہ زندگی کو اس لئے چھوڑا کہ مَیں اپنے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی گزاروں اور انسانوں میں ایک انسان کی حیثیت سے رہوں۔ یہ وجہ ہے کہ مَیں نے حجاب کا انتخاب کیا۔ مَیں مرتے دم تک اپنے حجاب کے حق کا دفاع کرتی رہوں گی۔آج حجاب خواتین کی آزادی کا جدید نشان ہے‘‘۔

آج مغرب فطرت کے خلاف جنگ آزما ہے۔ معاندانہ روش پر مبنی مغرب کا یہ رویہ عدل و انصاف کے منافی اور انسانیت کے دکھوں میں اضافے کا موجب ہے ۔عورت کو ڈھال بنا کر اس کے تقدس کو مجروح کرکے اسے مقام بلندسے گرانے کے اس رجحان نے خود مغرب اور مغربی معاشرے اور مغرب کے خاندانی نظام کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ مغرب کی خواہش ہے کہ مسلمان معاشرہ اس کی پیروی اور تقلید کرے۔ عورت جنس بازار بن کر کمرشل اشتہارات،میڈیا،ٹی وی اور فلموں میں اپنے جسم کی نمائش کرے اور شہوت پرستی میں غرق ہوکر اپنی عفت و عصمت اور معصومیت سے دستبردار ہو جائے اس سارے کھیل میں مغرب ،عالمی میڈیا اور عالمی ادارے یہود کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہیں۔ یہودی ذہن عورت کو بے حجاب کرکے اپنے سفلی اور کمرشل مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مغرب حجاب سے اسلئے خوفزدہ ہے کہ اس سے اس کی فیشن انڈسٹری خطرے میں ہے۔یہ بہت خوش آئند ہے کہ مسلمان عورت حجاب پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔نوجوان نسل چاہے مشرق میں بستی ہو یا مغرب میں قیام پذیر ہو وہ اپنی تہذیبی علامتوں اور شعائر کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کی آمادہ و تیار نظر آتی ہے۔مروہ الشربینی کی شہادت تحریک حجاب کے راستے کی پہلی شہادت تو ہو سکتی ہے آخری نہیں۔یہ حجاب کے ساتھ نوجوان نسل کی وابستگی کا اعلیٰ ، عملی ا

اسلام دین فطرت و رحمت ہے، یہ زندگی گزارنے کا مکمل سلیقہ ہے زندگی کے تمام دائروں پر محیط یہ نظام، زندگی کے ہر پہلو سے رہنمائی کا اعلیٰ و اکمل نمونہ ہے۔کامل و اکمل یہ نظام زندگی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، جو ہر دور،علاقے اور زمانے کے انسانوں کے لئے ہے ۔موجودہ دور جو بجا طور پر سائنسی ایجادات و اکتشافات کے عروج کا زمانہ ہے، انسان ترقی کے بام عروج پر نظر آتا ہے اور چاند پر پہنچنے کے بعد اب دوسرے سیاروں کی تسخیر کا عزم کیے ہوئے ہے۔مادی ترقی اور عروج کا یہ پہلو بھی قابل قدر اور بجا ہے لیکن ایسی ترقی جو انسان کو بلند مراتب پر فائز کرے اور وہ خالق کائنات کے دیے ہوئے روڈمیپ پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے مقصد زندگی کو پورا کرنے لگے۔وہ ناپید اور اس سے کوسوں دور ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ انسانی زندگی پریشانیوں،مصیبتوں اور دکھوں میں گھری ہوئی ہے اور یہ مصیبتیں ،یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ان دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا اسلام،قرآن اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی سیرت و اسوہ کی صورت میں انسانیت کے پاس موجود ہے کہ چاہے وہ اس سے روشنی پا لے اور جو نہ چاہے وہ محرومی اپنا مقدر کر لے۔ انسانیت اسلام کے دامن رحمت کی پناہ میں آ جائے تو مصیبتوں اور دکھوں سے نجات پا سکتی ہے۔

اسلام کا ایک شعار اور فخر حیا ہے، یہ مسلمان عورت کا امتیاز اور وقار ہے اورحجاب اس کا ایک عمدہ اظہار ،آج مغرب میں ’حجاب ‘کا غلغلہ ہے لیکن مغرب حجاب سے سخت خائف ہے ۔فرانس ،اٹلی ، بلجیئم ،ہالینڈاور ڈنمارک میں ’حجاب ‘ پر پابندی اسی کی غماز ہے۔بعض مسلمان ممالک بھی مغرب کے پیروکار ہیں۔حجاب عورت کے لئے آزادی،تحفظ اور پناہ کی علامت ہے۔یہ عورت کو غلط نظروں اور جدیدیت کے خراب اور طوفانی موسم کے برے اثرات سے محفوظ بنانے ، پاکیزگی اور نیکی کے بلند مراتب پر فائز کرنے اور تہذیب و شائستگی سے ہمکنار کرتا ہے۔

مغرب اور اس کے’ روشن خیال‘ طبقے نے نصف صدی قبل تحریک آزادئ نسواں کے نام پر،عورتوں کو’ آزادی‘ دلانے، مرد و زن کی معاشرتی ذمہ داریوں میں تفریق ختم کرنے کی ایک تحریک کا آغاز کیا۔پیش نظر یہ تھا کہ عورت گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے۔ اصل ہدف مسلمان عورت تھی اور اسلام کے خاندانی نظام کو شکست و ریخت سے دوچار کرنا تھا۔اس مہم جوئی میں عالمی میڈیا اور عالمی ادارے بالخصوص اقوام متحدہ ایک تھے۔اس کا نتیجہ ہے کہ مساوات مرد و زن اور عورتوں کے حقوق کے نام سے شروع ہونے والی یہ تحریک آج ہم جنس پرستی ، مساج سنٹرز ،ڈاگ میرج ، عریانی،فحاشی کی اشاعت،جنسی بے راہ روی ،برہنگی ،بن بیاہی ماؤں اور بن باپ کے بچوں ،شرح طلاق میں اضافے،منشیات کے بے تحاشا استعمال (شراب نوشی) اور موذی امراض(ایڈز) پر منتج ہوئی ہے۔

مغرب اور تہذیب مغرب نے اسلام اور اسلام کے فطری اصولوں سے بغاوت کا راستہ اپنایا، آزادئ نسواں ، مساوات اور آزادی کے خوشنما اور دلفریب نعروں میں مبتلا کرکے معاشروں کو تہذیب و شائستگی اور حیا سے محروم کیا۔ اسلام اور اسلامی شعائر، ناموسِ رسالت، اسلام کے خاندانی نظام اور حجاب کو ہدف بنا کر غلط فہمیوں کو جنم دیا۔ اور اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششیں کیں، اس شر سے یہ خیر برآمد ہوا کہ خود اہل مغرب میں اسلام سے رغبت پیدا ہوئی اور تجسس بڑھا لہٰذا مردوں کے ساتھ عورتوں کی بڑی تعداد نے اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لی اور حجاب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔مغرب کی حجاب مخالف مہم کا ہدف مسلمان عورت ، مسلمان خاندان اورمسلم معاشرے ہیں حجاب مخالف یہ مہم تہذیب و شائستگی اور حیا کو رخصت کرکے، بے حیائی ،فحاشی،عریانی،بدتہذیبی ، جنسی بے راہ روی اور آوارگی کو فروغ دینے کی مہم کا حصہ ہے ۔آج مسلمان عورت ہی نہیں خود مغربی عورت بھی حجاب کو اپنے لئے تحفظ اور آزادی کی علامت سمجھتی ہے۔
۴ستمبر کا دن بطور عالمی یوم حجاب منایا جاتا ہے جس سے تحریک حجاب کو ایک نیا آہنگ اور جوش و جذبہ میسر آتا ہے۔اسلام کو سمجھنے اور اسلامی اقدار کے رجحان میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔دنیا بھر میں یہ رجحان اور جذبہ روز افزوں ہے۔ حجاب اسلام اور قرآن سے متاثر ہو کر اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والی خواتین میں مریم جمیلہ (امریکہ) ایوان ریڈلی (برطانیہ) سارہ بوکر(امریکہ) لورین بوتھ(برطانیہ) اور ٹیرا بلیک تھورن(امریکہ) نمایاں مقام رکھتی ہیں۔اسلام اور حجاب کے بارے میں ان کے تاثرات نہایت ایمان افروز ہیں۔
نصف صدی قبل اسلام کی حقانیت  سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ لکھتی ہیں ’’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ نام نہادسیکولر اور آزاد خیال ممالک کپڑے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے (سکارف) سے خائف ہیں جس سے مسلمان عورتیں اپنے چہرے کا پردہ کرتی ہیں حتی کہ ان ممالک میں پبلک مقامات پر عورتوں کو نقاب پہن کر جانے پر جرمانہ عائد کرنا شروع کر دیا ۔یہ اصل میں نقاب نہیں نقاب کے پیچھے مسلمان عورت کا نورانی چہرہ ہے جس کی ایمانی حرارت سے یہ لوگ خائف ہیں۔‘‘

طالبان کی قید سے شہرت پانے اور قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ایمان قبول کرنے والے نامور برطانوی صحافی ایوان ریڈلی کہتی ہیں کہ ’’ فرانس میں حجاب پر اس لئے پابندی لگی ہے کہ وہاں کی خاتون اول کی عریاں تصاویر نیٹ پر موجود ہیں، یہ بات ان کو بری لگتی ہے کہ جب ہم سارے زمانے کیلئے موجود اور دستیاب ہیں تو یہ مسلمان عورت کیوں حجاب میں رہے‘‘۔

ایک راسخ العقیدہ عیسائی گھرانے میں پرورش پانے والی، ایکٹریس ،ماڈل ، ٹیچر اور سیاسی کارکن سارہ بوکر 9/11کے بعد اسلام قبول کرکے حجاب اختیار کرتی ہے ۔اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں’’مجھے اپنے اسلام قبول کرنے اور حجاب پہننے کے فیصلے پر کوئی ندامت نہیں۔ مَیں نے فلوریڈا کے جنوبی ساحل پر تیراکی کے لباس اور مغرب کی گلیمرانہ زندگی کو اس لئے چھوڑا کہ مَیں اپنے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی گزاروں اور انسانوں میں ایک انسان کی حیثیت سے رہوں۔ یہ وجہ ہے کہ مَیں نے حجاب کا انتخاب کیا۔ مَیں مرتے دم تک اپنے حجاب کے حق کا دفاع کرتی رہوں گی۔آج حجاب خواتین کی آزادی کا جدید نشان ہے‘‘۔

آج مغرب فطرت کے خلاف جنگ آزما ہے۔ معاندانہ روش پر مبنی مغرب کا یہ رویہ عدل و انصاف کے منافی اور انسانیت کے دکھوں میں اضافے کا موجب ہے ۔عورت کو ڈھال بنا کر اس کے تقدس کو مجروح کرکے اسے مقام بلندسے گرانے کے اس رجحان نے خود مغرب اور مغربی معاشرے اور مغرب کے خاندانی نظام کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ مغرب کی خواہش ہے کہ مسلمان معاشرہ اس کی پیروی اور تقلید کرے۔ عورت جنس بازار بن کر کمرشل اشتہارات،میڈیا،ٹی وی اور فلموں میں اپنے جسم کی نمائش کرے اور شہوت پرستی میں غرق ہوکر اپنی عفت و عصمت اور معصومیت سے دستبردار ہو جائے اس سارے کھیل میں مغرب ،عالمی میڈیا اور عالمی ادارے یہود کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہیں۔ یہودی ذہن عورت کو بے حجاب کرکے اپنے سفلی اور کمرشل مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مغرب حجاب سے اسلئے خوفزدہ ہے کہ اس سے اس کی فیشن انڈسٹری خطرے میں ہے۔یہ بہت خوش آئند ہے کہ مسلمان عورت حجاب پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔نوجوان نسل چاہے مشرق میں بستی ہو یا مغرب میں قیام پذیر ہو وہ اپنی تہذیبی علامتوں اور شعائر کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کی آمادہ و تیار نظر آتی ہے۔مروہ الشربینی کی شہادت تحریک حجاب کے راستے کی پہلی شہادت تو ہو سکتی ہے آخری نہیں۔یہ حجاب کے ساتھ نوجوان نسل کی وابستگی کا اعلیٰ ، عملی اور عمدہ اظہار ہے۔حجاب عزت وقار آزادی اور حیاکا ضامن ہے۔عورت اس سے تحفظ پاتی ہے۔ اور خاندانی نظام کو اس سے تقویت ملتی ہے ۔آئیے مل کر اسلام کے اس نشانِ امتیاز کی حفاظت کریں جو اسلام کے وقار کی علامت بن چکا ہے۔

Sunday, December 13, 2015

اسلام انسانیت کی کامیابی کا ضامن

اسلام انسانیت کی کامیابی کا ضامن 
از قلم: مولانا محمد ساجد قاسمی۔ استاذ دارالعلوم دیوبند


          اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اسے غیرمعمولی ظاہری اور معنوی خوبیوں سے آراستہ کیا، اس کے اندر مختلف تقاضے وضروریات رکھیں اوراس کی ضرورتوں اور تقاضوں کی تکمیل کا بھی انتظام فرمایا۔ انسان چونکہ جسم وروح کے مجموعے کا نام ہے؛ اس لیے اس کے ساتھ دونوں قسم کی ضرورتیں لگی ہوئی ہیں، جسمانی بھی اور روحانی بھی۔
          اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسیع وعریض کائنات پیدا کی اور اس کے لیے مسخر کردیا؛ چنانچہ آسمان وزمین، چاند وسورج، پانی وہوا، بہتے ہوئے سمندر اور دریا اور زمین کے مادی ذخائر وغیرہ سب کے سب انسان کے لیے پیدا کیے، اسے یہ صلاحیت دی کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور اپنی جسمانی ومادی ضروریات کی تکمیل کرے۔
          اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی ضرورت پوری کرنے کے لیے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا؛ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت داود علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، اس سلسلة الذہب کی کڑیاں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی ضرورت کی تکمیل کے لیے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنا پیغام دے کر بھیجا، پیغام یہ تھا کہ انسان کو خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دیں، اسے اس کی زندگی کا نصب العین بتائیں اوراسے اس کائنات کی تخلیق کے مقصد سے آگاہ کریں۔
          تمام انبیاء نے خدا کا پیغام اپنی قوموں کو پہنچایا؛ لیکن تمام قوموں کا خدائی پیغام کے تئیں ردِعمل انتہائی غیرمناسب رہا، انھوں نے انبیاء کی تکذیب کی، ان کا مذاق اڑایا اوران سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ انبیاء کے مشن کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھی نافرمان قوموں کو ایک ایک کرکے ہلاک کردیا۔
          اللہ تعالیٰ نے سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، آپ پر انبیاء کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ پر آخری کتاب نازل فرمائی، اب اس کے بعد کوئی کتاب نہیں آئے گی۔ آپ کے لائے ہوئے خدائی پیغام کو اسلام کہا جاتا ہے، یہ آخری پیغام ہے، یہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہے، اس میں پوری انسانیت کے لیے فلاح وکامرانی کی ضمانت ہے۔ دنیوی فلاح وکامرانی بھی اوراخروی بھی۔
          اسلام ایک دینِ کامل اور مکمل دستورِحیات ہے، انسانی زندگی سے متعلق اس میں واضح تعلیمات وہدایات موجود ہیں اوراس میں قیامت تک آنے والے مسائل کا حل بھی موجود ہے، اسلام نے انسانی تاریخ میں غیرمعمولی انقلاب برپا کیا، اسلامی تاریخ اس کی شاہد ہے۔
          اسلام نے تقریباً تیرہ صدیوں تک انسانیت کی قیادت کی، اس کی قیادت کا دور پوری انسانیت کے لیے خیر کا دور تھا، نہ صرف مسلمانوں؛ بلکہ غیرمسلموں کو بھی اس کی قیادت وحکمرانی کے زمانے میں مکمل آزادی، حقوق اور امن وامان حاصل رہا۔ دیگر اقوام کے ساتھ رواداری وخیرخواہی کی جو مثالیں دوراسلام میں ملتی ہیں، وہ نہ اس سے پہلے ملتی ہیں، نہ اس کے بعد۔
          لیکن بدقسمتی سے عالمی قیادت اسلام کے بجائے مغربی اقوام کے ہاتھوں میں پہنچی، ۱۹۲۴/ میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، اسلامی ممالک یکے بعد دیگرے مغربی حکومتوں کے زیرتسلط آتے چلے گئے اور پوری دنیا پر مغربی تہذیب کا تسلط ہوگیا؛ چونکہ دنیا کے بہت سے ممالک مغربی حکومتوں کی نوآبادیات میں شامل تھے؛ اس لیے ان میں مغربی طرزِ زندگی بڑی تیزی سے پھیلا۔ اسی طرح صنعتی اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ نے بھی مغربی طرزِزندگی اور مغربی تہذیب کے پوری دنیا میں پھیلنے میں زبردست کردار ادا کیا۔
          مغربی تہذیب ایک خالص مادی تہذیب ہے،اس کے تمام فلسفے ونظریات مادی ہیں، اس تہذیب کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں خدا کا کوئی تصور ہے نہ آخرت کا اور نہ اس میں انسان کی روحانی ضرورتوں اور تقاضوں کی تکمیل کا کوئی سامان ہے؛ چونکہ یہ خالص مادی تہذیب ہے؛ اس لیے اس میں تمام انسانی سرگرمیوں کا محور دنیاوی منافع، مادی وسائل اور اعلیٰ معیارِ زندگی کا حصول ہے۔ انسان کے لیے اپنی مادی ہوس پوری کرنے کے لیے اس میں حدود ہیں اور نہ بندشیں۔
          اس تہذیب کے زیراثر انسان اپنے مقصدِ زندگی سے ناواقف ہے اور اس وسیع وعریض کائنات کی مقصدیت سے بھی نابلد ہے۔ وہ داخلی بے چینی اور ناصبوری وناشکیبائی کا شکار ہے۔ اس کا خاندانی نظام درہم برہم ہورہا ہے۔ اس تہذیب کا ایک اہم حصہ جدید دریافتیں ہیں، جو دریافتیں انسانیت کے لیے مفید ہیں، وہ یقینا قابلِ قدر ہیں؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی دریافتوں کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ تباہ کن جدید ہتھیار بھی اسی تہذیب کی دین ہیں ۔

 اس نے تباہ کن ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں کی شکل میں انسانیت کی خودکشی کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ نیز لہوولعب کے نت نئے سامان آرہے ہیں، جنھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لہوولعب ہی مقصدِ زندگی ہے۔
          جس وقت عالمِ اسلام پر مغربی تہذیب کی یلغار ہوئی، اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ عالمِ اسلام میں ایک ایسا طبقہ کھڑا ہوتا، جسے ایک طرف تو اسلام کی صلاحیت اور ا ٓفاقیت پر پورا یقین ہوتا اور دوسری مغربی علوم اور فلسفوں پر استاذانہ نظر ہوتی۔ یہ طبقہ مغربی تہذیب کا بے لاگ تنقیدی جائزہ لیتا، اس کے مفید اور مضر پہلوؤں کی نشاندہی کرتا اور ان علوم اور فلسفوں کو اختیار کرنے کا مشورہ دیتا جو اسلام کے فکری نظام سے ہم آہنگ ہیں اور ان افکار ونظریات کا بھی تعین کرتا جو اسلامی عقائد سے متصادم ہیں۔
          لیکن مختلف وجوہات کی بناپر ایسا نہ ہوسکا۔ ایک وجہ اس تہذیب سے غیرمعمولی مرعوبیت تھی، جس وقت عالم اسلام میں معربی تہذیب کی آمد ہوئی؛ چونکہ یہ ایک تازہ دم اور طاقت ور تہذیب تھی؛ اس لیے اس سے مرعوبیت عام تھی۔ ایساکوئی طبقہ تیار نہ ہوسکا جو اس کا تنقیدی جائزہ لیتا، اس کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتا، اسلامی ممالک کے لیے لائحہٴ عمل تیار کرتا جس میں ایک طرف مکمل اسلامی روح ہوتی اور دوسری طرف مغرب کے مفید علوم بھی ہوتے۔
          دوسری وجہ یہ تھی کہ چونکہ عالم اسلام مغربی حکومتوں کی نوآبادیات بن چکا تھا؛ اس لیے اسلامی حکومتوں کا اس کے مقابلے میں کوئی ٹھوس موقف اختیار کرنا ممکن نہ رہا۔
          تیسری وجہ یہ ہے کہ خود عالم اسلام میں مغربی تہذیب کاایک نمائندہ طبقہ پیدا ہوگیا، یہ تھا معربی تعلیم یافتہ طبقہ، اس نے معربی طرز زندگی کو نہ صرف اپنایا؛ بلکہ جدت پسندی کے نام پر اس کی دعوت دی اور اپنے دائرئہ اختیار میں اسے نافذ بھی کیا۔ اس طبقے نے ہرمغربی چیز کو مقدس سمجھ کر اپنانا شروع کردیا؛ چنانچہ انگریزوں کی طرح کتاپالنا، کوٹ پینٹ پہننا، ٹائی لگانا اور اسلام زبان کے رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط اپنانے کو ترقی کی معراج سمجھا۔ علامہ اقبال نے اسی جدت پسندی کی تحریک کو دیکھ کر کہا تھا:
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہٴ تجدید          مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
          استعماریت کا دور ختم ہوا، اسلامی ممالک کو بھی مغرب کے سیاسی استعمار سے آزادی ملی؛ لیکن وہ مغرب کی فکری غلامی میں آج بھی جکڑے ہوئے ہیں۔ وہاں مغربی طرز حکومت، مغربی نظام تعلیم اور مغربی طرز زندگی رائج ہے۔ مغرب کی سیاسی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد بھی وہ نہ صحیح اسلامی حکومت قائم کرسکے، نہ ہی اپنا مستقل نظام تعلیم تشکیل دے سکے اور نہ اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں پر ڈھال سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں مادیت کا سیلاب دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، اسلامی روح رفتہ رفتہ نکلتی چلی جارہی ہے اور مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں۔
          آج پوری انسانیت مغربی تہذیب کے اثراتِ بد سے تباہی کے دہانے پر ہے، اگر انسانیت فلاح وکامرانی چاہتی ہے تو اسے اسلام کی طرف لوٹنا ہوگا، زندگی کے مختلف میدانوں میں اس کی رہنمائی لینی ہوگی۔ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھ میں دینی ہوگی۔ انسان خدا کی مخلوق ہے اور اسلام خدا کا قانون ہے، خدا کی مخلوق کے لیے خدا کا ہی قانون موزوں ہے، اس قانون اور نظام کے سامنے انسانوں کے خودساختہ نظام ہائے زندگی اور قوانین ناقص اور بونے ہیں، یہی واحد نظام ہے جو انسانیت کی فوزوفلاح کا ضامن ہے۔
$ $ $